مینے جنّطل بقی مے متووے کو متہ کا مذاق اڑاتے دیکھا :
متہ کیا ہے ملیزہ فرماے :
متعہ اور بازارِ حسن
بازار حسن کے نام پر آج اتنا پراپیگنڈہ ہے کہ یہ نکاح المتعہ کی وجہ سے ہے۔
پتا نہیں کتنے ایسے الزامی آرٹیکل چھپے، پتا نہیں کتنی ایسی ویڈیوز بنائی
گئیں۔
ضروری ہے کہ اس جھوٹے پروپیگنڈے کا پردہ چاک کیا جائے۔
بازار حسن کی حقیقت
حقیقت یہ ہے کہ یہ جتنے آپ کو کوٹھے ملیں گے، انڈیا سے لیکر پاکستان تک،
انکی تاریخ آپ اٹھا کر دیکھ لیں یہاں پر بچیوں کو اغوا کر کے لایا جاتا تھا
اور بطور کنیز باندی کے انہیں رکھا جاتا تھا اور پھر ان سے گانے و ناچ
وغیرہ کروائے جاتے تھے۔ باقاعدہ انکی قیمتیں لگتی تھیں اور یہ عورتیں
(کنیزیں) بکتی تھیں۔ یہ بازار عرب معاشرے سے شروع ہوئے اور پچھلی صدی تک
جاری رہے۔ مصر، تیونس، مراکش، انڈونیشیا وغیرہ ایسے بہت سے مسلمان ممالک
ہیں جہاں پر اہل تشیع آبادی موجود ہی نہیں ہے، مگر اسکے باوجود وہاں صدیوں
سے قحبہ خانے اور بازار حسن موجود ہیں اور تمام برائیاں وہاں موجود ہیں۔ اب
اسکا الزام اہل تشیع پر کیسے لگائیں گے؟ نہیں بلکہ وہاں بھی لوگوں نے
کنیز عورتوں کو قحبہ خانوں میں استعمال کیا۔
یہ قبیح فعل رسول اللہ (ص) کے اپنے زمانے میں ہی شروع ہو گیا تھا جہاں کنیز
عورتوں کی مجبوری کا ناجائز فائدہ اٹھا کر کچھ لوگوں نے ان کو بدکاری کرنے
پر مجبور کرتے تھے:۔
سنن ابو داؤد کی یہ ایک روایت [سنن ابو داؤد، کتاب 12، روایت 2304]:۔
جابر بن عبداللہ انصاری سے روایت ہے:
کسی انصاری کی ایک کنیز رسول ص کے پاس آئی اور کہا: میرا مالک مجھے بدکاری
پر مجبور کرتا ہے۔ اس پر اللہ نے قرآن میں یہ آیت نازل فرمائی: اور اپنی
کنیزوں کو بدکاری پر مجبور نہ کرو جبکہ وہ عفت و پاکدامنی چاہتی
ہیں۔(القرآن 24:33)
کنیز باندی سے عارضی جنسی تعلقات
فریق مخالف سے گذارش ہے کہ اپنے فقہ میں کنیز عورت کے مسئلے کو سامنے رکھیں
جس کے تحت کنیز عورت کے ساتھ وقتی تعلقات کے بعد اس کو اسکا آقا آگے کسی
اور شخص کو فروخت کر سکتا ہے. یہ نیا آقا اس کنیز عورت سے دوبارہ ہمبستری
کر سکتا ہے، اور اسکے بعد اسے تیسرے آقا کو فروخت کر سکتا ہے۔۔۔۔
صحیح مسلم [عربی ورژن ، http://hadith.al-islam.com/Display/Display.asp?Doc=1&Rec=3330'>آنلائن لنک]
صحیح مسلم
[http://www.usc.edu/schools/college/crcc/engagement/resources/texts/muslim/hadith/muslim/008.smt.html'>آنلائن لنک انگلش ورژن حدیث
http://www.usc.edu/schools/college/crcc/engagement/resources/texts/muslim/hadith/muslim/008.smt.html'>3371]
صحابی ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ جنگ کے بعد چند خوبصورت عرب عورتیں انکے
قبضے میں آئیں اور صحابہ کو انکی طلب ہوئی کیونکہ وہ اپنی بیویوں سے دور
تھے۔ مگر ساتھ ہی ساتھ میں صحابہ چاہتے تھے کہ وہ ان کنیز عورتوں کو بیچ کر
فدیہ بھی حاصل کریں۔ چنانچہ صحابہ نے عزل سے کام لیا [یعنی سفاح کرتے وقت
اپنے عضو تناسل باہر نکال کر پانی گرایا تاکہ وہ عورتیں حاملہ نہ ہو سکتیں
اور انکو اگلے مالک کو بیچنے پر اچھی قیمت مل سکے]۔ پھر انہوں نے اللہ کے
رسول ص سے اسکے متعلق پوچھا تو رسول اللہ ص نے فرمایا کہ تم چاہو یا نہ
چاہو مگر اگر کسی روح کو پیدا ہونا ہے تو وہ پیدا ہو کر رہے گی۔
عزل والی یہ روایت صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں کئی طریقے سے روایت ہوئی ہے۔
اسی طرح فقہائے کا اجماع ہے کہ اگر مالک کی اجازت سے اگر اس کی کنیز سے
کوئی دوسرا شخص عقد کرتا ہے، تو یہ عقد بھی دائمی نہیں ہوتا، اور جب مالک
چاہے، اپنی کنیز کو اس تیسرے شخص کے عقد سے نکال کر خود اس سے ہمبستری کر
سکتا ہے یا پھر کسی چوتھے سے اسکی شادی کر سکتا ہے، اس طرح یہ چیز بھی عقد
دائمی نہیں، بلکہ شروع وقت سے ہی عارضی و وقتی ہے اور ایسی طلاق کو اسلام
میں ہرگز مکروہ یا غیر پسندیدہ بھی نہیں قرار دیا ہے جیسا کہ نکاح دائمی
والی آزاد عورت کے معاملے میں طلاق ناپسندیدہ ترین فعل ہے۔
1۔ امام ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابن جریر اور ابن منذر نے صحابی ابن
مسعود سے روایت نقل کی ہے خاوند والی عورت تجھ پر حرام ہے مگر جسے تو اپنے
مال سے خریدے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ لونڈی کو بیچنا اسکی طلاق ہے۔
2۔ نیز امام ابن جریر نے صحابی عبداللہ ابن مسعود سے روایت نقل کی ہے کہ جب
لونڈی کو بیچ دیا جائے جبکہ اسکا خاوند بھی ہو تو اسکا آقا اس کے بضعہ
(وطی کا محل) کا زیادہ حقدار ہے۔ [تفسیر طبری، روایت 7139
http://quran.al-islam.com/Tafseer/DispTafsser.asp?l=arb&taf=TABARY&nType=1&nSora=4&nAya=24'>آنلائن
لنک ]
3۔ امام ابن جریر طبری نے حضرت ابن عباس سے روایت نقل کی ہے لونڈی کی طلاق
کی چھ صورتیں ہیں(مالک کا) اسکو بیچنا اسکی طلاق ہے، اسکو آزاد کرنا اسکی
طلاق ہے، (مالک کا) اسکو (اپنے باپ یا بھائی کو) ہبہ کرنا اسکی طلاق ہے،
اسکی برات اسکی طلاق ہے، اسکے خاوند کی طلاق اسکو طلاق
http://quran.al-islam.com/Tafseer/DispTafsser.asp?l=arb&taf=TABARY&nType=1&nSora=4&nAya=24'>ہے۔http://quran.al-islam.com/Tafseer/DispTafsser.asp?l=arb&taf=TABARY&nType=1&nSora=4&nAya=24'>[تفسیر
طبری روایت
http://quran.al-islam.com/Tafseer/DispTafsser.asp?l=arb&taf=TABARY&nType=1&nSora=4&nAya=24'>7135
]
نکاح متعہ میں عدت 45 دن
متعہ میں عدت کا زمانہ عام تقریبا ڈیڑھ سے دو مہینے ہے ۔
۔ امام رضا علیہ السلام کی روایت ہے امام محمد باقر علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: متعہ کا عدہ ۴۵ دن ہے۔ [فروع کافی]
۔ زرارہ کی روایت ہے کہ متعہ کا عدہ ۴۵ دن ہوتا ہے گویا اس وقت میری نظروں
میں پھر رہا ہے کہ امام محمد باقر اپنی انگلیوں پر ۴۵ دن شمار کرکے بتلا
رہے ہیں۔ پس جب مدت مقررہ گذر جائے تو یہ ان دونوں کی جدائی ہوگی۔ بغیر
طلاق کے۔
کنیز عورت کی عدت فقط تین سے سات دن (ماہواری سے پاک ہونا)
فریق مخالف کے فقہ کے مطابق کنیز عورت کی عدت فقط ماہواری آ جانے کے بعد
استبرائے رحم ہے۔ اسکے بعد انکے فقہ کے مطابق کنیز کا نیا مالک اسکے ساتھ
ہمبستری کر سکتا ہے۔
چنانچہ نکاح متعہ کر کے کے کوئی طوائف اپنا بزنس جاری نہیں رکھ سکتی،
کیونکہ اُسے اگر ہر گاہک کے جانے کے بعد ڈیڑھ سے دو مہینے کی عدت رکھنی پڑی
تو اُسکے ایک سال میں گاہکوں کی تعداد زیادہ سے زیادہ8 تک پہنچتی ہے۔
نتیجہ یہ ہو گا کہ ایسی طوائف کا بزنس بہت جلد ٹھپ ہو جائے گا۔
جبکہ اہلسنت فقہ کے مطابق کنیز عورت باندی کا ایک ماہواری آ جانے کے بعد ہی
استبرائے رحم ہو جاتا ہے اور اسکے بعد اگلا مالک اس سے ہمبستری کر سکتا
ہے۔ اس لحاظ سے بھی اگر کوئی بزنس کا ارادہ بھی رکھتا ہے تو وہ کنیز عورت
کے استعمال کی طرف جائے گا بجائے عقد متعہ کے۔
صحابہ اور کنیز عورتیں
امام اہلسنت البیقہی اپنی کتاب سنن الکبری، جلد دوم، صفحہ 227 پر نقل کرتے ہیں:۔
عن جده أنس بن مالك قال كن إماء عمر رضي الله عنه يخدمننا كاشفات عن
شعورهن تضطرب ثديهن۔ قال الشيخ والآثار عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه في
ذلك صحيحة
ترجمہ:
انس ابن مالک نے کہا: عمر ابن الخطاب کی کنیز باندیں ہماری خدمت میں مصروف تھیں اور انکے بال کھلے تھے اور انکے پستان ہل رہے تھے۔
البیہقی نے اس روایت کو "صحیح" قرار دیا ہے۔ اور سعودی شیخ ناصر الدین
البانی نے بھی اسے اپنی کتاب ارواء الغلیل، جلد 6 صفحہ 204 پر اس کی اسناد
کو صحیح قرار دیا ہے۔
اور اگر کوئی کنیز عورت غلطی سے اپنے سر کو ڈھانپ لیتی تھی تو حضرت عمر
اسکو مارتے تھے اور زبردستی اسکے سر کو ننگا کرتے تھے کیونکہ انکے نزدیک
ایسا کر کے کنیز عورت آزاد عورتوں کی برابری کر رہی ہوتی تھی:۔
عن المسيب بن دارم قال : رأيت عمر وفي يده درة فضرب رأس أمة حتى سقط القناع عن رأسها ، قال : فيم الأمة تشبه بالحرةترجمہ:۔
المسیب بن درام کہتے ہیں: میں نے دیکھا کہ عمر ابن خطاب ایک سوٹی اپنے ہاتھ
میں لیے ایک کنیز عورت کے سر پر مار رہے ہیں حتی کے اسکے سر سے چادر کھسک
کر نیچے نہ آ گئی۔ اور پھر جناب عمر نے کیا: یہ کنیز عورتیں کیوں آزاد
عورتوں کی نقل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں"؟
حوالہ:۔
http://www.al-eman.net/Islamlib/viewchp.asp?BID=185&CID=90'>طبقات ابن سع، جلد 7، صفحہ 127 (آنلائن لنک)۔
http://www.al-eman.com/Islamlib/viewchp.asp?BID=137&CID=582'>کنز الاعمال، جلد 15، صفحہ 486، حدیث 41928 (آنلائن لنک)۔
اہل تشیع کے مطابق یہ مستحب ہے اگر کنیز عورتیں اپنا سر ڈھک کر رکھیں (الرسائل از فہد الحلی، جلد 288)۔
اور حضرت عمر کے صاحبزادے، ابن عمر کے متعلق ہے کہ:۔
عن نافع ، عن ابن عمر " أنه كان إذا اشترى جارية كشف عن ساقها ووضع يده بين ثدييها و على عجزهاترجمہ:۔
نافع کہتے ہیں کہ ابن عمر جب بھی کنیز عورت خریدا کرتے تو وہ کنیز عورت کی
ٹانگوں کا معائینہ کرتے، اپنے ہاتھ کنیز عورت کی چھاتی کے درمیان ہاتھ
رکھتے اور کولہوں پر ہاتھ رکھتے۔
حوالہ:۔
http://islamport.com/b/3/alhadeeth/motoon/%df%ca%c8%20%c7%e1%e3%ca%e6%e4/%c7%e1%d3%e4%e4%20%c7%e1%df%c8%d1%ec%20%e1%e1%c8%ed%e5%de%ed/%c7%e1%d3%e4%e4%20%c7%e1%df%c8%d1%ec%20%e1%e1%c8%ed%e5%de%ed%20052.html'>سنن
الکبری از امام اہلسنت البیہقی، جلد 5، صفحہ 329
سعودی شیخ ناصر الدین البانی نے اس روایت کو "صحیح" قرار دیا ہے (مختصر
ارواء الغلیل فی التخریج الاحادیث، جلد 1، صفحہ 355، حدیث نمبر 1792)۔
ابن عمر کے متعلق یہ روایت بھی نقل ہوئی ہے:۔
مجاہد کہتے ہیں کہ ابن عمر نے اپنا ہاتھ کنیز عورت کے پستانوں کے درمیان رکھا اور انہیں ہلایا۔
http://www.islamweb.net/ver2/archive/showHadiths2.php?BNo=1542&BkNo=17&KNo=16&startno=5'>حوالہ:
مصنف عبد الرزاق، جلد 7، صفحہ 286، روایت 13204
اور مصنف ابن ابی شیبہ ، جلد 4، صفحہ 289، روایت 20241 میں درج ہے:۔
نا علي بن مسهر عن عبيدالله عن نافع عن ابن عمر أنه إذا أراد أن يشتري
الجارية وضع يده على أليتيها وبين فخذيها وربما كشف عن ساقهاترجمہ:۔
نافع کہتے ہیں کہ جب بھی ابن عمر کنیز عورت کو خریدنے کا قصد کرتے، وہ اپنا
ہاتھ اسکے کولہوں پر رکھتے، اسکی دونوں رانوں کے درمیان رکھتے اور کبھی
اسکی ٹانگیں ننگی کرتے۔
اور مجاہد سے یہ روایت مروی ہے:۔
حدثنا جرير عن منصور عن مجاهد قال كنت مع بن عمر امشي في السوق فإذا نحن
بناس من النخاسين قد اجتمعوا على جارية يقلبونها فلما راوا بن عمر تنحوا
وقالوا بن عمر قد جاء فدنا منها بن عمر فلمس شيئا من جسدها وقال أين أصحاب
هذه الجارية إنما هي سلعةترجمہ:۔
میں ابن عمر کے ساتھ کنیز عورتوں کے بازار میں پھر رہا تھا کہ ہم نے دیکھا
کہ کنیز عورتیں بیچنے والے لوگ ایک کنیز کے گرد جمع ہیں اور اسکا معائینہ
کر رہے ہیں۔ جب ان لوگوں نے ابن عمر کو دیکھا تو وہ رک گئے اور کہنے لگے کہ
ابن عمر آئے ہیں۔ اس پر ابن عمر اس کنیز عورت کے قریب گئے، اسکے جسم کے
کچھ حصوں کو ٹٹولا اور کہا: اس کنیز کا مالک کون ہے؟
حوالہ: مصنف ابن ابی شیبہ، جلد 4، صفحہ 289، روایت 20240
کنیز عورت کے حوالے سے بہت مواد ہے۔ لیکن آخر میں فتاوی عالمگیری کے ان فتوؤں پر اکتفا کرتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment