Showing posts with label Urdu. Show all posts
Showing posts with label Urdu. Show all posts

Thursday, 14 November 2024

مسجدیں قبر پر بنانے کی اجازت ہے


یہاں ہمارے ثبوت ہیں...

اسلام سے پہلے کی مثالیں جہاں قبروں پر مسجدیں بنائی گئیں:

مندرجہ ذیل فہرست محض اشارہ ہے اور اسے مکمل نہیں سمجھا جانا چاہیے:

1. حضرت داؤد (ع) کی قبر القدس، اسرائیل میں

2. حضرت ابراہیم (ع) کی قبر ہیبرون، اسرائیل میں

3. حضرت اسحاق (ع) کی قبر ہیبرون میں

4. حضرت یعقوب (ع) کی قبر ہیبرون میں

5. حضرت یوسف (ع) کی قبر ہیبرون میں

تمام قبریں بلند پتھر کی تعمیرات تھیں اور اسلام کے القدس میں پھیلنے کے بعد بھی یہی حالت میں رہیں۔

Tareeqe Jannatul Baqi - Urdu Book

Monday, 23 February 2015

قبر کو مس کرنے اور چومنے میں کوئی مسئلہ نہیں: احمد بن حنبل

صحیح بخاری کے مشہور شارح، بدر الدین عینی، اپنی کتاب عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری، جلد ۱۴، صفحہ ۴۷۱؛ میں رقمطراز ہیں


وقال أيضا وأما تقبيل الأماكن الشريفة على قصد التبرك وكذلك تقبيل أيدي الصالحين وأرجلهم فهو حسن محمود باعتبار القصد والنية وقد سأل أبو هريرة الحسن رضي الله تعالى عنه أن يكشف له المكان الذي قبله رسول الله وهو سرته فقبله تبركا بآثاره وذريته وقد كان ثابت البناني لا يدع يد أنس رضي الله تعالى عنه حتى يقبلها ويقول يد مست يد رسول الله وقال أيضا وأخبرني الحافظ أبو سعيد ابن العلائي قال رأيت في كلام أحمد بن حنبل في جزء قديم عليه خط ابن ناصر وغيره من الحفاظ أن الإمام أحمد سئل عن تقبيل قبر النبي وتقبيل منبره فقال لا بأس بذلك قال فأريناه للشيخ تقي الدين بن تيمية فصار يتعجب من ذلك ويقول عجبت أحمد عندي جليل يقوله هذا كلامه أو معنى كلامه وقال وأي عجب في ذلك وقد روينا عن الإمام أحمد أنه غسل قميصا للشافعي وشرب الماء الذي غسله به

(ہمارے شیخ زین الدین نے) اسی طرح کہا کہ شریف مکانات/جگہوں کو تبرک کی نیت سے چومنے، اور اسی طرح نیک لوگوں کے ہاتھوں اور پیروں کو چومنا، یہ قصد و نیت کے اعتبار سے حسن اور ممدوح ہے۔ ابو ہریرہ نے امام حس سے کہا کہ مجھے وہ جگہ دکھائیں جہاں نبی پاک نے چوما۔ اور وہ ان کی ناف تھی، وہ انہوں نے وہ چوما، اس وجہ سے کہ نبی پاک کے آثار اور اولاد کی وجہ سے تبرک حاصل کریں-
اور ثابت البنانی انس کا ہاتھ تب تک نہ چھوڑتے جب تک چوم نہ لیتے، اور کہتے کہ اس ہاتھ نے نبی پاک کا ہاتھ مس کیا ہے۔ اسی طرح امام احمد بن حنبل سے قبر رسول اور منبر رسول و چومنے کے بارے میں پوچھا گیا، تو انہوں نے جواب دیا کہ اس میں کوئی حرج نہیں
شیخ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ ابن تیمیہ اس پر حیران ہوئے اور کہا: عجیب ہے! امام احمد تو میرے نظر میں بہت جلیل القدر ہیں، اور وہ اس طرح کی باتیں کر رہے ہیں- اور اس ضمن میں یہ بھی عجیب ہے- اسی طرح امام احمد سے مروی ہے کہ وہ امام شافعی کی قمیص دھوتے اور اس پانی کو پی جاتے جس سے قمیص دھوئی ہوتی


ابو ہریرہ کی جس روایت کی بات ہو رہی ہے، وہ مجمع الزوائد، جلد ۹، صفحہ ۱۰۵؛ پر یوں درج ہے

15045- وعن عمير بن إسحاق قال: رأيت أبا هريرة لقي الحسن بن علي فقال له: اكشف عن بطنك حيث رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقبل منه، فكشف عن بطنه فقبله.
15056- وفي رواية: فقبل سرته.
رواه أحمد والطبراني إلا أنه قال: فكشف عن بطنه ووضع يده على سرته.
ورجالهما رجال الصحيح غير عمير بن إسحاق وهو ثقة.

عمیر بن اسحاق نے کہا کہ میں نے دیکھا کہ ابو ہریرہ امام حسن سے ملے، اور کہا کہ اپنے پیٹ کو میرے لیے آشکارہ کریں جہاں میں نے دیکھا کہ نبی پاک نے چوما۔ پس انہوں نے آشکارہ کیا، اور انہوں نے چوما۔ اور دوسری روایت میں ہے کہ ان کے ناف کو چوما۔ احمد اور طبرانی نے روایت کی، اور راوی سارے ثقہ ہیں سوارئے عمیر بن اسحاق کے، اور وہ ثقہ ہیں

امام احمد کے جس قول کی طرف نشاندہی کی، وہ ان کی العلل و المعرفۃ الرجال، جلد ۲، صفحہ ۴۹۲؛ پر یوں درج ہے


3243 – سألته عن الرجل يمس منبر النبي صلى الله عليه و سلم ويتبرك بمسه ويقبله ويفعل بالقبر مثل ذلك أو نحو هذا يريد بذلك التقرب إلى الله جل وعز فقال لا بأس بذلك

امام احمد سے پوچھا گیا کہ ایک شخص منبر رسول کو چھوتا ہے، اور چھونے اور اسے چومنے سے تبرک حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اور وہ یہ کام قبر کے ساتھ بھی کرتا ہے اور اس کا ارادہ اللہ کا قرب حاصل کرنا ہے۔ احمد بن حنبل نے جواب دیا کہ اس میں کوئی حرج نہیں


اب لگائیے شرک کے فتوے !!!

Sunday, 30 June 2013

لعنت و تبرا


ذیل کی دو چیزوں میں فرق کیجئے:

  • سب و شتم کرنا (بُرا بھلا کہنا، گالیاں دینا)
  • لعنت و تبرا اور غلط فعل پر تنقید کرنا
اسلامی شریعت میں کسی بھی شخص پر سب و شتم کرنا حرام و کبیرہ گناہ ہے۔

مگر لعنت و تبرا عین اسلامی افعال ہیں ۔ یہ "سنت الہیہ " و "سنت رسول" ہے کیونکہ اللہ اور اسکے رسول ﷺ نے بذات خود لعنت کی ہے اور قرآن و سنت میں انکا مکمل ثبوت موجود ہے۔ لعنت کا مطلب ہے کہ کسی کے غلط فعل یا ظلم پر اللہ سے اسکے حق میں بددعا کرنا۔ جبکہ تبرا کا مطلب ہے اس سے بیزاری ظاہر کرنا۔

مذہب اہلبیت میں کسی پر سب و شتم کرنے کی ہرگز کوئی اجازت نہیں۔ اگر کوئی جاہل شخص یہ کام سر انجام دیتا ہے تو یہ اسکا اپنا ذاتی فعلِ حرام ہے اور اسکا مذہب اہلبیت سے کوئی تعلق نہیں۔

ائمہ اہلبیت علیھم السلام کی تعلیمات کے مطابق فعل حرام انجام دینے پر تنقید کی جا سکتی ہے، اور اس سے بیزاری اختیار کی جا سکتی ہے، اور اگر بہت بڑے ظلم کا ارتکاب کیا ہے تو اس پر لعنت (اللہ سے بددعا) کی جا سکتی ہے، مگر سب و شتم کسی صورت نہیں کیا جا سکتا۔ مثلا مومن کو قتل کرنا بہت بڑا ظلم ہے اور اللہ اسکے متعلق فرماتا ہے:
[سورۃ النساء، آیت 93] وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا


ترجمہ:
اور جو شخص کسی مسلمان کو قصداً قتل کرے تو اس کی سزا دوزخ ہے کہ مدتوں اس میں رہے گا اور اس پر اللہ غضبناک ہوگا اوراس پر لعنت کرے گا اور اس نے اس کے لئے زبردست عذاب تیار کر رکھا ہے


اب چاہے یہ عمدا قتل کسی عام مسلمان سے ہو، یا پھر کسی صحابی یا صحابی زادے سے ہوا ہو، اسلامی شریعت میں اسکا ایک ہی قانون ہے اور اسکی ایک ہی سزا ہے۔
صحابہ پرستش کی بیماری میں مبتلا ہو کر اسلامی شریعت کو تبدیل کرنا


مسئلہ یہ ہے کہ آج اگر ہم کسی صحابی کے غلط فعل کا تذکرہ کرنا چاہیں، اس پر تنقید کرنا چاہیں، اس سے تبرا (بیزاری) اختیار کرتے ہوئے اللہ سے انکے حق میں بددعا (لعنت کریں) تو ناصبی حضرات فوراً پروپیگنڈہ شروع کر دیتے ہیں کہ یہ لوگ کافر ہو گئے ہیں کیونکہ یہ صحابہ پر سب و شتم (برا بھلا کہنا، گالیاں دینا) کر رہے ہیں، حالانکہ ان تینوں چیزوں (تنقید، تبرا و لعنت) کا سب و شتم سے کوئی تعلق نہیں۔

ناصبی حضرات کی خود ساختہ شریعت کی بات الگ ہے، ورنہ اسلامی شریعت میں صحابی کے کسی غلط فعل پر تنقید کرنے سے کوئی کفر صادر آتا ہے اور نہ ہی تبرا و لعنت کرنے سے (مثلاً رسول ﷺ نے معاویہ ابن ابی سفیان پر لعنت کی تھی کہ اللہ اسکا پیٹ کبھی نہ بھرے۔ پڑھئیےhttp://www.wilayat.net/index.php?op...ver-hungry&catid=91:Muawiyyah&Itemid=75'>مکمل آرٹیکل یہاں پر)۔ یا پھر صحابی حکم بن العاص پر رسول اللہ ﷺ نے لعنت فرمائی (http://shiachat.forumotion.com/companions-good-and-bad-f4/al-hakam-ibn-al-aas-la-t113.htm'>لنک)۔

کیا صحابہ کو بُرا بھلا کہنے والابھی واجب.....





جنت البقیع: دنیا کی سب سے عظیم ہستیوں کا قبرستان



Monday, 10 June 2013

متعہ

مینے جنّطل بقی مے متووے کو متہ کا مذاق اڑاتے دیکھا :
متہ کیا ہے ملیزہ فرماے : 

متعہ اور بازارِ حسن

بازار حسن کے نام پر آج اتنا پراپیگنڈہ ہے کہ یہ نکاح المتعہ کی وجہ سے ہے۔ پتا نہیں کتنے ایسے الزامی آرٹیکل چھپے، پتا نہیں کتنی ایسی ویڈیوز بنائی گئیں۔
ضروری ہے کہ اس جھوٹے پروپیگنڈے کا پردہ چاک کیا جائے۔

بازار حسن کی حقیقت

حقیقت یہ ہے کہ یہ جتنے آپ کو کوٹھے ملیں گے، انڈیا سے لیکر پاکستان تک، انکی تاریخ آپ اٹھا کر دیکھ لیں یہاں پر بچیوں کو اغوا کر کے لایا جاتا تھا اور بطور کنیز باندی کے انہیں رکھا جاتا تھا اور پھر ان سے گانے و ناچ وغیرہ کروائے جاتے تھے۔ باقاعدہ انکی قیمتیں لگتی تھیں اور یہ عورتیں (کنیزیں) بکتی تھیں۔ یہ بازار عرب معاشرے سے شروع ہوئے اور پچھلی صدی تک جاری رہے۔ مصر، تیونس، مراکش، انڈونیشیا وغیرہ ایسے بہت سے مسلمان ممالک ہیں جہاں پر اہل تشیع آبادی موجود ہی نہیں ہے، مگر اسکے باوجود وہاں صدیوں سے قحبہ خانے اور بازار حسن موجود ہیں اور تمام برائیاں وہاں موجود ہیں۔ اب اسکا الزام اہل تشیع پر کیسے لگائیں گے؟ نہیں بلکہ وہاں بھی لوگوں نے کنیز عورتوں کو قحبہ خانوں میں استعمال کیا۔

یہ قبیح فعل رسول اللہ (ص) کے اپنے زمانے میں ہی شروع ہو گیا تھا جہاں کنیز عورتوں کی مجبوری کا ناجائز فائدہ اٹھا کر کچھ لوگوں نے ان کو بدکاری کرنے پر مجبور کرتے تھے:۔

سنن ابو داؤد کی یہ ایک روایت [سنن ابو داؤد، کتاب 12، روایت 2304]:۔
جابر بن عبداللہ انصاری سے روایت ہے:
کسی انصاری کی ایک کنیز رسول ص کے پاس آئی اور کہا: میرا مالک مجھے بدکاری پر مجبور کرتا ہے۔ اس پر اللہ نے قرآن میں یہ آیت نازل فرمائی: اور اپنی کنیزوں کو بدکاری پر مجبور نہ کرو جبکہ وہ عفت و پاکدامنی چاہتی ہیں۔(القرآن 24:33)

کنیز باندی سے عارضی جنسی تعلقات

فریق مخالف سے گذارش ہے کہ اپنے فقہ میں کنیز عورت کے مسئلے کو سامنے رکھیں جس کے تحت کنیز عورت کے ساتھ وقتی تعلقات کے بعد اس کو اسکا آقا آگے کسی اور شخص کو فروخت کر سکتا ہے. یہ نیا آقا اس کنیز عورت سے دوبارہ ہمبستری کر سکتا ہے، اور اسکے بعد اسے تیسرے آقا کو فروخت کر سکتا ہے۔۔۔۔

صحیح مسلم [عربی ورژن ، http://hadith.al-islam.com/Display/Display.asp?Doc=1&Rec=3330'>آنلائن لنک]
صحیح مسلم [http://www.usc.edu/schools/college/crcc/engagement/resources/texts/muslim/hadith/muslim/008.smt.html'>آنلائن لنک انگلش ورژن حدیث 

 http://www.usc.edu/schools/college/crcc/engagement/resources/texts/muslim/hadith/muslim/008.smt.html'>3371]
صحابی ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ جنگ کے بعد چند خوبصورت عرب عورتیں انکے قبضے میں آئیں اور صحابہ کو انکی طلب ہوئی کیونکہ وہ اپنی بیویوں سے دور تھے۔ مگر ساتھ ہی ساتھ میں صحابہ چاہتے تھے کہ وہ ان کنیز عورتوں کو بیچ کر فدیہ بھی حاصل کریں۔ چنانچہ صحابہ نے عزل سے کام لیا [یعنی سفاح کرتے وقت اپنے عضو تناسل باہر نکال کر پانی گرایا تاکہ وہ عورتیں حاملہ نہ ہو سکتیں اور انکو اگلے مالک کو بیچنے پر اچھی قیمت مل سکے]۔ پھر انہوں نے اللہ کے رسول ص سے اسکے متعلق پوچھا تو رسول اللہ ص نے فرمایا کہ تم چاہو یا نہ چاہو مگر اگر کسی روح کو پیدا ہونا ہے تو وہ پیدا ہو کر رہے گی۔

عزل والی یہ روایت صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں کئی طریقے سے روایت ہوئی ہے۔

اسی طرح فقہائے کا اجماع ہے کہ اگر مالک کی اجازت سے اگر اس کی کنیز سے کوئی دوسرا شخص عقد کرتا ہے، تو یہ عقد بھی دائمی نہیں ہوتا، اور جب مالک چاہے، اپنی کنیز کو اس تیسرے شخص کے عقد سے نکال کر خود اس سے ہمبستری کر سکتا ہے یا پھر کسی چوتھے سے اسکی شادی کر سکتا ہے، اس طرح یہ چیز بھی عقد دائمی نہیں، بلکہ شروع وقت سے ہی عارضی و وقتی ہے اور ایسی طلاق کو اسلام میں ہرگز مکروہ یا غیر پسندیدہ بھی نہیں قرار دیا ہے جیسا کہ نکاح دائمی والی آزاد عورت کے معاملے میں طلاق ناپسندیدہ ترین فعل ہے۔

1

امام موسی بن جعفر الکاظم علیہ السلام کی قبر انور سے توسل

امام موسی بن جعفر الکاظم علیہ السلام کی قبر انور سے توسل :
خطیب بغدادی نے اپنی تاریخ میں ابو علی الخلال سے روایت کیا ہے : وہ فرماتے ہیں کہ مجھے جو بھی مسئلہ درپیش ہوا میں نے موسی بن جعفر کی قبر کی زیارت کا قصد کیا ، اور پھر میں نے بارگاہ خداوندی میں ان سے توسل کیا تو جو کام میں چاہتا تھا اللہ نے وہ میرے لیئے آسان کردیا۔ خطیب نے یہ روایت بایں سند نقل کری ہے۔
أخبرنا القاضي أَبو محمد الحسن بن الحسين بن محمد بن رامين الإستراباذي، قَال: أَخبرنا أَحمد بن جعفر بن حمدان القطيعي، قَال: سمعت الحسن بن إِبراهيم أبا علي الخلال، يقول: ما همني أمر فقصدت قبر مُوسَى بْن جعفر، فتوسلت به إلا سهل الله تعالى لي ما أحب.
تاريخ بغداد // المجلد 1 // الصفحة 442 // الناشر: دار الغرب الإسلامي - بيروت
روایت کی اسنادی حیثیت :
قال الديوبندي : اسناده مقبول ان شاء الله لا بأس به۔ القاضي أَبو محمد الحسن بن الحسين بن محمد بن رامين الإستراباذي۔ قال الخطيب : كتبت عنه وكان صدوقا فاضلا صالحا. (1) و أَحمد بن جعفر بن حمدان هو أبو بكر القطيعي : قال الحافظ فيه صدوق في نفسه مقبول تغير قليلا.(2) و رد الحافظ علی ما قال ابن الصلاح فیه فتعقب علیه بقوله : قلت: فهذا القول غلو وإسراف.(3) قال الخطيب: لم نر أحدا امتنع من الرواية عنه، ولا ترك الاحتجاج به.(4) وقال الحاكم: ثقة مأمون.(5) والراوي هو الحسن بن إِبراهيم قال الخطيب حدث عن محمد بن منصور الطوسي، وأَبو بكر المروذي- صاحب أحمد بن حنبل.(6)
دیوبندی نے کہا اس کی سند قابل قبول ہے ان شاء اللہ، اس کی اسناد میں کوئی حرج نہیں ہے۔
پہلے راوی قاضی ابو محمد کے بارے میں خطیب کہتے ہیں کہ یہ صدوق، فاضل، اور صالح تھے۔
دوسرے راوی أَحمد بن جعفر بن حمدان کے بارے میں حافظ ابن حجر کہتے ہیں کہ یہ بذات خود صدوق تھے البتہ عمر کے آخری حصہ میں ان کا حافظہ تھوڑا کمزور ہوگیا تھا، ابن الصلاح نے ان پر جرح کی ہے جس کو حافظ نے رد کیا ہے، حافظ کہتے ہیں کہ ابن الصلاح کا کلام زیادتی اور غلو پر مشتمل ہے، خطیب بغدادی کہتے ہیں کہ أَحمد بن جعفر بن حمدان سے کسی نے بھی روایت کرنے سے منع نہیں کیا اور نہ ہی کسی نے ان سے احتجاج ترک کیا ، یعنی سب نے ان سے احتجاج کیا ہے، اسیطرح امام حاکم فرماتے ہیں کہ أَحمد بن جعفر بن حمدان ثقہ اور امین ہیں۔
اور آخری راوی حسن بن ابراہیم ہیں جنہوں نے اپنا یہ عمل بیان کیا ہے ، ، خطیب کہتے ہیں کہ انہوں نے محمد بن منصور طوسی اور محدث ابو بکر المروذی سے روایت کری ہے، یہ امام احمد بن حنبل کے ساتھیوں میں سے ہیں۔
=====================================

.1 )
تاريخ بغداد // المجلد 8 // الصفحة 255 // الناشر: دار الغرب الإسلامي - بيروت
.(2)
لسان الميزان // المجلد 1 // الصفحة 418 // الناشر: دار البشائر الإسلامية-
.(3)
أيضا
.(4)
تاريخ بغداد // المجلد 5 // الصفحة 116 // الناشر: دار الغرب الإسلامي - بيروت-
.(5)
نقل الحافظ عنه : لسان الميزان // المجلد 1 // الصفحة 418 // الناشر: دار البشائر الإسلامية-
.(6)
تاريخ بغداد // المجلد 8 // الصفحة 229 // الناشر: دار الغرب الإسلامي - بيروت-

===============

Sunday, 9 June 2013

Falsafa e Taqayya - Urdu Book

Jab Mai Ziyarat e Aimma Baqi ke liye Medina gaya. Waha Maine Adpade Mutawwo ko dekha jo Shia mazhab ka mazaak udha rahe the.
Ek Mutawwe ne Imam Jafar Sadiq Ke Taqayya ki Hadith ka Mazaak Uthaya. Ye dekhkar bahot dukh hua ke kis tarah ye Wahabi Mutawi Shia aur Shia Aqaeed ka Mazaak Utha rahe the aur waya khade log apne Jaan ke Khauf se Kuch keh nahi Paa rahe the.
Falsafa Taqayya kya Hai, Samajhne ke liye Mulaeza farmeye ye Kitab :

Naser Makarem Shirazi - Falsafa e Taqayya

Radd e Wahabiyat by Maulana Ali Naqvi

This is a very important Shia references book on Wahabiyat by Maulana Sayyed Ali Naqi Naqvi - A Must read Book for all Urdu Readers.


Radd E Wahabiyat

Wednesday, 5 June 2013

Janabe Aisha Grave is not there in Jannatul Baqi


"Muawiyah invited Ayesha for dinner, and he got a ditch dug in the ground, filling it up with sharp knives and swords, with their blades facing upwards. According to Alama Ibn Khaldoon, Mauweyah masked that ditch with lanky pieces of wood, and spread a carpet on top of it all to camouflage it. He placed a wooden chair over it for Ayesha to sit. No sooner Ayesha sat on the chair, the whole set up retrieved and she fell in the pit, injuring herself from head to toe, and breaking a lot of bones. To hide his felony, Mauweyah got the ditched filled up with lime. That is how he murdered Ayesha; she was sixty four years old when Mauweyah murdered her towards the end of 57 Hijri. This proves, with out a doubt, that Mauweyah was an enemy of Prophet Mohammed (p), and he proved his enmity towards the Prophet (p) by murdering his (p) wife. The only reason that Mauweyah performed this heinous act was that Ayesha stopped him from making fun of Islam from the pulpit of Masjid-e-Nabvi.. This is why no one knows the exact location of Ayeshas grave in Medina."

He killed the Mother of the Believers Ayesha in cold blood after ordering the killing of her brother Muhammad bin Abu Bakar. He was also responsible for the killings of many other companions of the Prophet (p) including Hajar bin Adi and Ammar Yasir.

Following the death of Muhammad bin 'Abu Bakr the people of Egypt gave bayya to Muaweyah. It was following this (event) that Ummul Mu'mineen Ayesha would curse Muaweyah and Amr bin Aas after every Salaat.

Tadhkira ul Khawass page 62


Sunni References:


Musharriful Mahbubin by Hazrat Khuwaja Mehboob Qasim Chishti Mushrrafi Qadri http://www.shiachat.com/forum/public/style_emoticons/default/ra.gif Pages 216-218


Kokab wa Rifi Fazal-e-Ali Karam Allah Wajhu, Page 484, By Syed Mohammed Subh-e-Kashaf AlTirmidhi, Urdu translation by Syed Sharif Hussein Sherwani Sabzawari, Published by Aloom AlMuhammed, number B12 Shadbagh, Lahore, 1st January 1963.


Habib Alseer Rabiyah AlAbrar, Volume 1, Alama JarulAllah Zamik (530 Hijri),


Hadoiqa Sanai, by Hakim Sanai (Died 525 Hijri, at Ghazni), Page 65-67,


Namoos Islam, by Agha Hashim Sialkoti, Published Lahore, 1939 - Pages 66-67


Tazkarah Tul-Aikram Tarikh-e-Khulafa Arab-Wa-Islam by Syed Shah Mohamed Kabir Abu Alalaiyi Dana Puri, Published Le Kishwar Press, Lakhnow, April 1924/ 1346 H


Sipah e Sahaba and other Wahabi scum have introduced Muaweyah as a companion of the Prophet.
One very clever move by the Wahabis was to declare Muaweyah a scribe (katib e Wahi) who wrote down the revelations of Allah's Messenger.

All praise be to Allah swt, the leading Sunni scholars realising this conspiracy of the Wahabis, have declared all hadith praising Muaweyah as fabricated.

Not a single hadith in praise of Muaweyah is Sahih (authentic)

Many classical Sunni scholars whilst listing those individuals honored as writer of the revelation did not count Mu'awiya. For evidence see the following texts:

Fathul Bari page 450 Volume 2
Irshad Saneed Volume 9 page 22
Umdhathul Qari Volume 9 page 307
Nasa al Kafiya page 170
Iqd al Fareed Volume 2 page 197
al Isaba Volume 3 page 413
تاریخ ابنِ خلدون میں درج ہے کہ مروان نے مروایا، تاریخِ اسلام میں بھی ایسا ہی لکھا ہے، لیکن حبیب السیر مصنفہ غیاث الدین بن حمام میں لکھا ہے کہ عائشہ کو معاویہ نے قتل کروایا، اسی طرح مولٰی اور معاویہ مصنفہ علامہ حاجی سید بابا خلیل احمد صاحب کے صفحہ 407 کی آخری سطر میں بھی یہ درج ہے کہ اماں عائشہ کو معاویہ نے زندہ درگور کر دیا۔۔۔۔۔۔۔ 

Wahabiyat by Ehsan Abdul Latif Bakri - Urdu Book

Wahabiyat by Ehsan Abdul Latif Bakri by LoverofAli

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...